تاریخ کا صفحہ

تعارف

تاریخ انسانیت کے ماضی کی داستان ہے۔ اس میں قوموں کے عروج و زوال، تہذیبوں کی ترقی اور اہم واقعات کو محفوظ کیا جاتا ہے۔ تاریخ ہمیں نہ صرف ماضی سے سیکھنے کا موقع فراہم کرتی ہے بلکہ مستقبل کے لیے رہنمائی بھی دیتی ہے۔

اہم تاریخی ادوار

تاریخ کی اہمیت

تاریخ کا مطالعہ ہمیں اپنی شناخت، ثقافت اور اقدار کو سمجھنے میں مدد دیتا ہے۔ یہ ہمیں غلطیوں سے سیکھنے اور بہتر مستقبل کی منصوبہ بندی کرنے کا شعور بخشتا ہے۔

نتیجہ

تاریخ صرف ماضی کا بیان نہیں، بلکہ حال اور مستقبل کے لیے ایک قیمتی اثاثہ ہے۔ آئیں، تاریخ کو پڑھیں اور اس سے سبق حاصل کریں۔

اہم موضوعات

یہ 25 مئی 1923 کی بات ہے۔ برطانیہ نے اردن کی آزادی پر مہر ثبت کر دی تھی اور اس وقت اس کی کمان شہزادہ عبداللہ بن الحسین کے ہاتھ میں تھی۔ 23 سال بعد 1946 میں اردن ایک آزاد ملک بنا اور 25 مئی کو اردن کی ہاشمی سلطنت کی بنیاد بھی رکھی گئی۔ لیکن اردن کی آزادی کے لیے اس وقت طے پانے والے معاہدے کے مطابق اور بعد میں سنہ 1928 کے آئین کے مطابق بھی برطانیہ کو اس ملک کے اقتصادی، عسکری اور خارجہ امور کا فیصلہ کرنے کا حق حاصل تھا۔ بائبل میں درج تاریخی حوالوں سے معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت اس علاقے کو مرکزی حیثیت حاصل تھی۔ یہ وہ علاقہ ہے جسے دریائے اردن فلسطین سے الگ کرتا ہے۔

بائبل میں جن سلطنتوں کا ذکر ہے جیسا کہ موآب، گیلاد اور آدم، یہ سب اردن کی سرحد میں واقع تھیں۔ دارالحکومت اور جزیرہ نما عرب کا رومی صوبہ بھی یہیں موجود تھا جو اپنے سرخ پتھروں کے لیے مشہور ہے۔ برطانوی سیاح گرٹروڈ بیل نے پیٹرا کو کچھ یوں بیان کیا ’یہ ایک افسانوی شہر کی طرح تھا، یہاں ہر چیز گلابی اور شاندار ہے۔‘

پہلی عالمی جنگ کے دوران عربوں نے سلطنت عثمانیہ کے خلاف سنہ 1916 کے انقلاب میں اتحادی قوتوں (برطانیہ اور فرانس) کے ساتھ ہاتھ ملایا۔ باقاعدہ طور پر مکہ میں شریف حسین بن علی نے 10 جون کو ترک حکمرانوں کے خلاف بغاوت کا اعلان کیا۔ برطانوی انٹیلی جنس افسر تھامس ایڈورڈ لارنس جزیرہ نما عرب پہنچ گئے اور دو سال تک عرب جنگجوؤں کے ساتھ کام کیا۔ یہ ایک طرح کی ملیشیا تھی۔ لارنس ایک رابطہ افسر بن گئے۔ وہ مکہ میں اس وقت مرکزی رہنما شریف حسین بن علی کے بیٹے فیصل کے مشیر کے طور پر بھی کام کر رہے تھے۔ مشرق وسطیٰ کی جدید تاریخ میں تھامس ایڈورڈ کو ’لارنس آف عربیہ‘ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ وہ حکمت عملی کے ماہر تھے اور انھوں نے ترکوں کے خلاف جنگ میں بااثر کردار ادا کیا تھا۔ اکتوبر 1916 میں شریف حسین بن علی نے خود کو ’عرب ممالک کا بادشاہ‘ قرار دیا۔ تاہم ان کے ساتھیوں نے انھیں صرف ’حجاز کے بادشاہ‘ کے طور پر تسلیم کیا۔ عرب افواج حجاز ریلوے لائنز پر قبضہ کیا اور پھر جولائی 1917 میں شہزادہ فیصل بن علی حسین کی فوج نے عقبہ پر قبضہ کر لیا۔ بحیرہ احمر کے کنارے تعمیر ہونے والی بندرگاہ عقبہ کی تزویراتی اہمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ شہزادہ فیصل کی فوج کی یہ پہلی بڑی فتح تھی۔ ان کی فوج کی فتوحات کا سلسلہ جاری رہا اور وہ آہستہ آہستہ شمال کی طرف بڑھنے لگے۔ چار اکتوبر 1918 کو شہزادہ فیصل کی سربراہی میں ان کی فوج دمشق میں داخل ہوئی۔ اس کے ساتھ ہی گذشتہ چار سو سال سے قائم عثمانی سلطنت کا تسلط ختم ہو گیا۔ ترک مسلسل کمزور ہو رہے تھے مگر عرب افواج اور ترک فوج کے درمیان جنگ 1918 کے آخر تک جاری رہی۔

یہ جنگ اتحادیوں اور سلطنت عثمانیہ کے درمیان یونان کی بندرگاہ مدروس پر ہونے والے مدروس معاہدے کے ساتھ ختم ہوئی۔ معاہدے کے تحت دونوں فریقوں نے جنگ کے خاتمے پر اتفاق کیا تھا۔ پہلی عالمی جنگ کے اختتام پر عرب افواج نے 35 ہزار ترک فوجیوں کو پکڑ لیا تھا۔ ترک فوجیوں کی ہلاکتوں کی تعداد تقریباً اتنی ہی تھی۔ 20 مارچ 1920 کو دمشق میں ’سیرین جنرل کانگریس‘ کا اجلاس ہوا جس میں شریف حسین بن علی کے بیٹے فیصل اول کو متحدہ شام کا بادشاہ قرار دیا گیا، متحدہ شام میں فلسطین بھی شامل تھا۔ لیکن چند ہی ہفتوں میں پہلی جنگ عظیم میں سلطنت عثمانیہ کی مخالفت کرنے والے اتحادی ممالک نے اپنے زیرِقبضہ علاقوں کو تقسیم کر دیا۔ سلطنت عثمانیہ کی تقسیم کا یہ فیصلہ اپریل 1920 میں اٹلی کے شہر سان ریمو میں منعقدہ ایک امن کانفرنس میں لیا گیا تھا۔ شام کی سلطنت تقسیم ہو گئی۔ شام اور لبنان کو فرانسیسیوں کے حوالے کر دیا گیا جبکہ فلسطین کو برطانوی راج کے حوالے کر دیا گیا۔ فرانس نے جلد ہی فیصل کی سلطنت پر حملہ کر دیا اور جولائی 1920 میں میسالون کی جنگ کے بعد دمشق کا کنٹرول سنبھال لیا۔ شاہ فیصل کو جلاوطن کر دیا گیا اور برطانوی حکومت کی دعوت پر بالآخر وہ لندن چلے گئے۔ نومبر 1920 میں فیصل کے بھائی عبداللہ دو ہزار جنگجوؤں کے ساتھ معان پہنچ گئے۔ معان موجودہ اردن کے جنوبی حصے میں آتا ہے لیکن اس وقت یہ حجاز کا حصہ تھا۔ اس کا مقصد قبائلیوں کو جمع کرنا اور فرانسیسیوں پر حملہ کرنا تھا۔ وہ بادشاہ فیصل کا بدلہ لینا چاہتے تھے جسے سلطنت چھوڑنے پر مجبور کیا گیا تھا۔

اس دوران برطانیہ نے عراق میں اپنا تسلط قائم کر لیا تھا۔ پہلی عالمی جنگ کے دوران 1917 میں برطانیہ نے بصرہ، بغداد اور موصل کا کنٹرول سنبھال لیا جو سلطنت عثمانیہ کا حصہ تھے۔ تاہم مئی 1920 میں عراق میں اتحادی قوتوں کے خلاف بغاوت چھڑ گئی۔ عراقی عوام نے محسوس کیا کہ جس آزادی کا ان سے وعدہ کیا گیا تھا اسے نظرانداز کر دیا گیا ہے۔ برطانیہ کو اپنی پوزیشن مضبوط کرنے کے لیے مزید ایک لاکھ برطانوی اور ہندوستانی فوجیوں کو تعینات کرنے کی ضرورت تھی۔ برطانوی حکومت کی مخالفت کو کم کرنے کے لیے برطانیہ نے مارچ 1921 میں فیصلہ کیا کہ وہ شاہ فیصل کو عراق کے نمائندے کے طور پر سپانسر کرے گا تاکہ ان کے ساتھ ایک معاہدہ کیا جا سکے جس سے عراق کی آزادی کا راستہ کھل جائے۔ شاہ فیصل نے اس منصوبے پر رضامندی ظاہر کی۔ عراق میں ان کا استقبال کیا گیا اور اگست 1921 میں انھیں وہاں تاج پہنایا گیا۔ اپریل1921 تک اتحادی قوتوں نے فیصلہ کر لیا تھا کہ شاہ فیصل کے بھائی عبداللہ کو ’ٹرانس جارڈن‘ کا حکمران بننا چاہیے۔ اس طرح برطانوی راج نے اردن کے علاقے میں عثمانی ترکوں کی جگہ لے لی۔ جولائی 1922 میں لیگ آف نیشنز نے اس مینڈیٹ کی منظوری دی اور برطانیہ کو اس علاقے پر اپنی مرضی کے مطابق حکومت کرنے کا حق مل گیا۔ 25 مئی 1923 کو برطانیہ نے ’ٹرانس جارڈن‘ کی آزادی پر مہر لگا دی۔ شہزادہ عبداللہ بن الحسین کو اس کا حکمران مقرر کیا گیا۔ ’ٹرانس جارڈن‘ کی آزادی کے اس معاہدے اور 1928 کے آئین کے مطابق مالی، عسکری اور خارجہ امور کے بارے میں فیصلہ کرنے کا حق برطانوی حکومت کے ہاتھ میں رہا۔ اتحادی قوتوں کی طرف سے حکومت کرنے کے لیے وہاں ایک ریزیڈینٹ مقرر کیا گیا تھا۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد 22 مارچ 1946 کو لندن میں ہونے والے ایک معاہدے کے تحت امارات آف ٹرانس جارڈن کو مکمل آزادی ملی۔ عبداللہ نے خود کو بادشاہ قرار دیا۔ ایک نیا آئین بنایا گیا اور 1949 میں امارات آف ٹرانس جارڈن کا نام بدل کر ہاشمی کنگڈم آف اردن رکھ دیا گیا۔

شاہ عبداللہ 1882 میں مکہ میں پیدا ہوئے۔ ان کی وفات 20 جولائی1951 کو یروشلم میں ہوئی۔ مشرق وسطیٰ کی تاریخ میں انھیں اردن کی ہاشمی بادشاہت کے پہلے بادشاہ کے طور پر جانا جاتا ہے۔ انھوں نے 1946 سے 1951 تک اردن پر حکومت کی۔ حجاز کے حکمران شریف حسین بن علی کے دوسرے بیٹے عبداللہ نے استنبول میں تعلیم حاصل کی تھی۔ استنبول اس زمانے میں عثمانی سلطنت ہوا کرتا تھا۔ 1908 کے ’ینگ ترک انقلاب‘ کے بعد انھوں نے عثمانی پارلیمنٹ میں مکہ کی نمائندگی کی۔ 1914 کے آغاز میں وہ عرب نیشنل موومنٹ میں شامل ہو گئے۔ اس تحریک کا مقصد عربوں کی سرزمین کو سلطنت عثمانیہ سے آزاد کرانا تھا۔ 1915 سے 1916 تک انھوں نے اتحادی قوتوں اور شریف حسین بن علی کے درمیان خفیہ مذاکرات میں اہم کردار ادا کیا۔ اس گفتگو کا نتیجہ 10 جون 1916 کو سلطنت عثمانیہ کے خلاف عربوں کی بغاوت کا اعلان تھا۔ عبداللہ نے اپنے بڑے بھائی شاہ فیصل کے عراق کا کنٹرول سنبھالنے کے بعد اردن کے علاقے کا کنٹرول سنبھال لیا۔ انھوں نے شام پر حملہ کرنے کی دھمکی دی اور برطانوی مقبوضہ فلسطین سے ٹرانس جارڈن کے علاقے کو قانونی طور پر الگ کرنے کے لیے برطانیہ کے ساتھ بات چیت شروع کی۔ شاہ عبداللہ ایک ایسی عرب مملکت بنانا چاہتے تھے جس میں شام، عراق اور ٹرانس جارڈن شامل ہوں۔ دوسری جنگ عظیم کے دوران انھوں نے برطانیہ کا ساتھ دیا۔ ان کی فوج جسے ’عرب لشکر‘ بھی کہا جاتا ہے، 1941 میں شام اور عراق کی جنگ میں اتحادی قوتوں کے ساتھ لڑی تھی۔ ٹرانس جارڈن کو 1946 میں آزادی ملی۔ 25 مئی 1946 کو عمان میں عبداللہ کی تاج پوشی ہوئی اور اردن کی ہاشمی بادشاہت کے قیام کا اعلان کیا گیا۔

گناہ گار کے لیے معافی ہے غدار کے لیے نہیں۔

24 مئی 1998 کو ایک نوجوان پولیس آفسر اپنی تربیت مکمل کر کے پہلی پوسٹنگ سب ڈویژنل پولیس آفسر (اے ایس پی) پھلیلی، حیدر آباد تعینات تھا۔ اتوار کو وہ اپنے دفتر میں موجود تھے کہ شام کے وقت اچانک وائرلیس پر ایک پیغام چلا کہ تمام ایس ڈی پی اوز اور ایس ایچ اوز فوری طور پر حیدر آباد ایئرپورٹ پہنچیں۔ یہ وہ دور ہے جب انڈیا 11 سے 13 مئی 1998 کے دوران متعدد ایٹمی دھماکے کر چکا تھا اور پاکستان اور انڈیا کے تعلقات کافی کشیدہ ہو چکے تھے۔ یہ باتیں بھی عام ہو رہی تھیں کہ انڈیا جوابی ایٹمی دھماکے کرنے سے روکنے کے لیے پاکستان پر حملہ کر سکتا ہے۔ اس لیے اس نوجوان افسر کو پہلا گمان یہ گزرا کہ شاید کچھ ایسی ہی صورتحال درپیش ہے جو اچانک سب افسران کو ایئرپورٹ بلا لیا گیا ہے۔

>

اے ایس پی پھلیلی ڈاکٹر عثمان انور (جو اب ڈی آئی جی ہیں اور اس وقت ڈائریکٹر جنرل وفاقی محتسب پنجاب تعینات ہیں) نے فوری طور پر اپنی اہلیہ کو گھر پر فون کیا اور انھیں آگاہ کیا کہ ہو سکتا ہے انھیں گھر واپس لوٹنے میں تاخیر ہو جائے۔ ساتھ ساتھ انھوں نے یہ ہدایت بھی کی کہ اگر جنگ چھڑ گئی (ان کے خدشے کے مطابق) تو اہلیہ ان کے کمسن بیٹے کو لے کر ملازم کی مدد سے پہلی ٹرین کے ذریعے فوری طور پر لاہور اپنے والدین کے پاس چلی جائیں۔

چونکہ اُن کے پاس اس وقت موبائل فون نہیں تھا اور نہ ہی انٹرنیٹ کی کوئی سہولت، اس لیے اس وقت تک انھیں یہ معلوم نہیں تھا کہ پی آئی اے کا ایک طیارہ اغوا ہو کر حیدر آباد ایئرپورٹ پر لینڈ ہو چکا ہے اور سکیورٹی اہلکار اسی ایمرجنسی صورتحال سے نمٹنے کے لیے وہاں پہنچے ہیں۔

ڈاکٹر عثمان انور کے مطابق ایئرپورٹ پہنچ کر انھیں معلوم ہوا کہ یہاں معاملہ تو طیارہ ہائی جیکنگ کا ہے اور جہاز کے کپتان کیپٹن عزیر خان نے بڑی مہارت سے پی آئی اے کے اس فوکر جہاز F-27 کو ایئرپورٹ عملے کی مدد سے ایئرپورٹ کی عمارت سے تھوڑا دور ایک طرف جا کھڑا کر دیا ہے تاکہ ہائی جیکرز عمارت پر حیدر آباد ایئرپورٹ لکھا ہوا نہ دیکھ سکیں۔ اغوا کاروں کو طیارے کے کپتان پہلے ہی بتا چکے تھے کہ وہ اسے اڑا کر انڈیا کی ریاست گجرات کے بھوج ایئرپورٹ پر ری فیولنگ کی غرض سے لے آئے ہیں جس کے بعد اغوا کاروں کے مطالبے کے مطابق وہ انھیں انڈیا کے دارالحکومت نئی دہلی لے جائیں گے۔ ڈاکٹر عثمان انور بتاتے ہیں کہ حیدر آباد ایئرپورٹ کے مینجر نے بھی بڑی عقلمندی سے کپتان کی جانب سے لینڈنگ کی اجازت طلب کرنے والے ایمرجنسی پیغام کو بھانپ لیا اور کاک پٹ میں اطلاع دی کہ ہاں یہ بھوج ایئرپورٹ ہی ہے اور وہ یہاں ری فیولنگ کے لیے اُتر سکتے ہیں۔ شام کے وقت جہاز کی لینڈنگ کے دوران ایئرپورٹ کی تمام لائٹس بھی بند کر دی گئیں تھیں تاکہ اغوا کار کسی بھی طرح کی کوئی تحریر پڑھ کر الرٹ نہ ہو جائیں کہ یہ انڈیا نہیں بلکہ پاکستان ہی ہے۔

دوسری طرف اس طیارہ ہائی جیکنگ کے خلاف آپریشن کے انچارج اور اس وقت کے ایس ایس پی حیدر آباد اختر گورچانی نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ اس روز وہ حیدر آباد پریس کلب میں ایک تقریب پر مدعو تھے اور شام چھ یا سات بجے کا وقت ہو گا جب انھیں اطلاع دی گئی کہ کچھ ہائی جیکرز ایک طیارہ اغوا کر کے حیدرآباد لے آئے ہیں۔ اختر گورچانی کے مطابق وہ فوراً وہاں سے اٹھے اور اپنے حکام بالا کو اطلاع کر کے ایئرپورٹ کی طرف چل دیے۔ اختر گورچانی جو بعد میں ملک کی سول خفیہ ایجنسی انٹیلیجنس بیورو کے سربراہ بھی رہے، وہ اس واقعے کو یاد کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ جب وہ ایئرپورٹ پہنچے تو انھیں بتایا گیا کہ آرمی کے ایک بریگیڈیئر تھوڑی دیر تک آئیں گے اور وہ ہی اس آپریشن کی قیادت کریں گے۔ انھوں نے کہا کہ جب کچھ دیر بعد وہ بریگیڈیئر صاحب آئے تو انھوں نے کہا کہ 'گورچانی صاحب تب تک یہ آپریشن آپ لوگ ہی دیکھیں گے جب تک انھیں اس حوالے سے متعلقہ کور کمانڈر آفس سے باقاعدہ احکامات نہیں ملتے۔' اس طرح پاکستان کی طرف سے 28 مئی 1998 کو کیے گئے ایٹمی دھماکوں سے محض چند روز قبل ہائی جیکنگ کے اس آپریشن کی قیادت اختر گورچانی کے حصے میں ہی آئی۔

ڈاکٹر عثمان انور کے مطابق ہائی جیکنگ کی اس واردات سے کچھ عرصہ قبل ہائی جیکروں نے اس واردات کو انجام دینے کے لیے باقاعدہ منصوبہ بندی کی تھی اور اس منصوبے کے مطابق انھوں نے ایئرپورٹ سکیورٹی فورس کے ایک ملازم کو اپنے ساتھ یہ کہہ کر شامل جرم کہ وہ کچھ منشیات سمگل کرنا چاہتے ہیں، اس لیے وہ ان کے بیگ کو سکیورٹی سکینر سے گزارنے کے بجائے جہاز میں بیٹھتے وقت انھیں پکڑا دے۔ اے ایس ایف اہلکار نے ویسا ہی کیا اور یہ لوگ منشیات سے بھرا بیگ جہاز کے اندر لے گئے اور اس اہلکار کو انھوں نے اس کام کے عوض ایک لاکھ روپے رشوت دی۔ ڈاکٹر عثمان انور کے مطابق دوسری بار بھی ہائی جیکروں نے ویسا ہی کیا جس کے بعد اغوا کاروں کو یقین ہو گیا کہ اے ایس ایف اہلکار کبھی بھی ان کا بیگ چیک نہیں کرے گا۔ اس لیے منصوبے کے مطابق 24 مئی کو تیسری مرتبہ انھوں نے اس بیگ میں منشیات کے بجائے ہتھیار رکھ لیے اور تربت میں بغیر چیکنگ کے وہ بیگ اس اے ایس ایف اہلکار کی معاونت سے طیارے کے اندر پہنچ گیا۔ جیسے ہی جہاز نے گوادر سے کراچی کے لیے اڑان بھری تو تین ہائی جیکروں جن میں شاہ سوار، صابر اور شبیر نامی افراد شامل تھے، انھوں نے اسے اغوا کر لیا۔ تینوں ہائی جیکرز جمال حسین، انور حسین اور غلام حسین کے جعلی ناموں پر سفر کر رہے تھے اور اُن کا تعلق بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن سے تھا۔ طیارے میں اس وقت 33 مسافروں کے علاوہ عملے کے پانچ ارکان بشمول جہاز کے کپتان کیپٹن عزیر خان، فرسٹ آفیسر محمد فیصل، ایئرہوسٹس خالدہ آفریدی، فلائٹ اٹینڈنٹ اور فلائٹ انجینئر محمد سجاد چوہدری سوار تھے۔

ڈاکٹر عثمان کا دعویٰ ہے کہ 'ہمیں 100 فیصد یقین ہے کہ ہائی جیکنگ کا یہ منصوبہ دراصل انڈیا کی سازش تھی جو پاکستان کو ایٹمی دھماکے کرنے سے روکنے کی ایک کوشش تھی کیونکہ بعد میں ہائی جیکروں نے بتایا تھا کہ وہ یہ سب اس لیے بھی کر رہے تھے کہ وہ نہیں چاہتے تھے کہ پاکستان بلوچستان میں ایٹمی دھماکے کرے۔' ڈاکٹر عثمان انور نے دعویٰ کیا کہ ہائی جیکروں کے پاس بھوج ایئرپورٹ کا نقشہ بھی موجود تھا اسی لیے جب وہ دریائے سندھ کو عبور کر کے حیدر آباد ایئرپورٹ پر اترنے والے تھے تو انھیں لگا کہ دریائے سندھ دراصل وہ ندی ہی ہے جو نقشے کے مطابق بھوج ایئرپورٹ کے پاس واقع ہے اور وہ انڈیا میں ہی اُترنے والے ہیں۔ ڈاکٹر عثمان انور بتاتے ہیں کہ جب ہائی جیکرز جہاز کے کپتان کو بھوج ایئرپورٹ پر جہاز اتار نے کی بات کر رہے تھے تبھی اس نے ایمرجنسی چینل کے ذریعے ایئرپورٹ حکام کو کمال مہارت سے پیغام دے دیا تھا کہ جہاز اغوا ہو گیا ہے۔ جہاز کے اغوا کی اطلاع سب سے پہلے ایس ایس پی حیدر آباد اختر گورچانی اور ڈپٹی کمشنر حیدر آباد سہیل اکبر شاہ کو دی گئی۔

ڈاکٹر عثمان انور کے مطابق اس وقت کے ڈپٹی کمشنر حیدر آباد سہیل اکبر شاہ جو بعد میں سابق وزیر اعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ کے پرنسپل سیکریٹری بھی رہے، انھوں نے بھی صورتحال کو بھانپتے ہوئے پولیس کی مدد سے ایئرپورٹ کے آس پاس بالخصوص اور حیدرآباد میں بالعموم یہ اطلاع پہنچائی کی کسی مسجد کے لاؤڈ سپیکر سے اذان نہیں دی جائے گی تاکہ ہائی جیکرز کو یہ علم نہ ہو جائے کہ وہ پاکستان میں ہی ہیں نہ کہ انڈیا میں۔ 'اس روز پورے حیدر آباد میں شام کی شاید لیکن عشا کی یقیناً اذان کسی ایک مسجد میں بھی بذریعہ سپیکر نہیں دی گئی۔' پورے ایئرپورٹ اور اطراف کی سڑکوں کا پولیس، رینجرز اور آرمی کے نوجوانوں نے گھیراؤ کیا ہوا تھا اور ہر طرح کی ٹریفک بھی بند کر دی گئی۔ ڈاکٹر عثمان انور کے مطابق اس اچانک صورتحال سے نمٹنے کے لیے کوئی رسمی میٹنگ نہیں ہوئی تھی بس اﷲ کی طرف سب ایسے ہی ہوتا چلا گیا جیسا ہائی جیکرز چاہتے تھے اور آپریشن تک جہاز کے پائلٹ، شریک پائلٹ اور انجینئر کے علاوہ عملے میں شامل ایئر ہوسٹسز کو بھی پتا نہیں تھا کہ یہ بھوج نہیں بلکہ حیدر آباد میں واقع پاکستان ہی کا ایک ایئرپورٹ ہے۔

ڈاکٹر عثمان انور مزید بتاتے ہیں کہ لینڈنگ کے تھوڑی دیر بعد ہائی جیکرز نے جہاز کے انجینئر کو باہر بھیجا تاکہ وہ نیچے اُتر کر ہائی جیکرز کی اس ڈیمانڈ سے حکام کو آگاہ کریں کہ 'انھیں بابا جان نے بھیجا ہے اور وہ انڈیا کے زی ٹی وی کے انتظار میں ہیں جس پر وہ اس ہائی جیکنگ کے متعلق انٹرویو دیں گے۔' 'اس وقت چونکہ ڈش آ چکی تھی تو سب سے زیادہ زی ٹی وی ہی چلتا تھا۔' پی آئی اے کی سفید یونیفارم میں ملبوس انجینئر نے بتایا کہ ہائی جیکرز زی ٹی وی کی ٹیم کے انتظار میں ہیں جو آ کر ان کا انٹرویو کریں گے۔ انجینئر نے آ کر مزید بتایا کہ جہاز کے اندر کل پانچ ہائی جیکرز ہیں، وہ مسلح ہیں، ان کے پاس بم ہیں اور چھوٹے ہتھیار ہیں اور انھوں نے بم جہاز میں لگا دیے ہیں اور وہ جہاز کو اڑا دیں گے۔ 'اس وقت جہاز میں چونکہ ایئر کنڈیشنر کا نظام بند تھا، گرمی بہت زیادہ تھی اور پینے کا پانی ختم ہو چکا تھا اور جیسے ہی انھوں نے پانی مانگا تبھی اختر گورچانی صاحب کے ذہن میں خیال آیا کہ چونکہ وہ خود یونیفارم میں نہیں تو انھیں ہی پانی دینے جانا چاہیے۔' اختر گورچانی نے بی بی سی کو بتایا کہ انھوں نے خود آگے بڑھ کر فیصلہ کیا تھا کہ وہ خود پانی پہنچانے جائیں گے اور انھوں نے اپنے اے ایس پی ڈاکٹر عثمان انور جو پینٹ شرٹ میں تھے، انھیں کہا کہ 'عثمان چلو گے جس پر وہ کہنے لگے کیوں نہیں سر!' اختر گورچانی کا مزید کہنا تھا کہ جانے سے پہلے انھیں یہ اطلاع دی گئی تھی کہ آرمی کے کمانڈوز اسلام آباد سے کراچی اور وہاں سے ہیلی کاپٹر کے ذریعے حیدر آباد آئیں گے کیونکہ حیدر آباد ایئرپورٹ پر رات کے وقت لینڈنگ کی کوئی سہولت نہیں تھی اس لیے انھیں ہائی جیکروں کو زیادہ سے زیادہ وقت باتوں میں الجھانا ہو گا تاکہ کمانڈوز پہنچ سکیں اور پھر ان ہائی جیکرز کے خلاف آپریشن ہو سکے۔ ڈاکٹر عثمان انور بتاتے ہیں کہ اس وقت ان کی جیب میں پانچ سو روپے تھے جو انھوں نے نکال کر ایک پتھر کے نیچے رکھ دیے تاکہ ہائی جیکرز اگر تلاشی لیں تو ان کی جیب سے پاکستان کے حوالے سے کوئی چیز نہ نکلے، 'اس کے بعد ہم دونوں پانی کی جتنی بوتلیں اٹھا سکتے تھے وہ اٹھائیں اور جہاز کے پاس چلے گئے۔' ڈاکٹر عثمان انور مزید بتاتے ہیں کہ چونکہ وہ تو گھڑی پہنتے نہیں تھے لیکن جہاز کی طرف بڑھنے سے پہلے اختر گورچانی نے اپنی گھڑی کا وقت آدھا گھنٹہ آگے کر کے انڈیا کے ٹائم کے ساتھ کر لیا تاکہ اگر ہائی جیکرز اس چیز کو چیک کریں بھی تو انھیں کسی بھی قسم کا شک نہ ہو۔

اختر گورچانی نے بی بی سی کو بتایا کہ جیسے ہی وہ دونوں جہاز کی طرف بڑھ رہے تھے تو انھیں خیال آیا کہ ہائی جیکروں کو بھوج ایئرپورٹ کا بتایا ہے تو پھر ان دونوں کے نام بھی ہندوؤں کے ناموں جیسے ہی ہونے چاہیں اس لیے انھوں نے ڈاکٹر عثمان انور کا نام اسٹنٹ مینیجر بھوج ایئرپورٹ رام چندر اور اپنا نام مینیجر بھوج ایئرپورٹ منوج کمار رکھ لیا اور جاتے ہوئے وائرلیس پر بھی اطلاع کر دی کہ اگر انھیں وہاں ایمرجنسی میں کال کی بھی جائے تو انھی ناموں سے انھیں پکارا یا کوئی پیغام دیا جائے۔ ڈاکٹر عثمان انور کے مطابق جیسے ہی وہ بوتلیں لے کر جہاز کے پاس پہنچے تو ہائی جیکروں نے گن پوائنٹ پر ان کا استقبال کیا اور بوتلیں ایک طرف رکھوا دیں اور دونوں کی جامع تلاشی لی گئی۔ 'جب ہائی جیکروں کو یقین ہو گیا کہ ہمارے پاس واکی ٹاکی کے علاوہ کچھ نہیں تو انھیں تسلی ہو گئی اور ساتھ ہی ہم نے بھی چپکے چپکے جہاز کا جائزہ لینا شروع کر دیا کہ جہاز میں ہائی جیکرز کتنے ہیں اور کہاں کہاں پر ہیں۔ ہم نے دیکھا کہ تین نیچے کھڑے ہیں اور دو دروازوں کے پاس کھڑے ہیں۔' ڈاکٹر عثمان انور کے مطابق تقریباً 15 سے 20 منٹ کے بعد ہائی جیکرز سے بات چیت شروع ہوئی اور وہ ان سے آہستہ آہستہ بے تکلف ہونا شروع ہو گئے۔ 'جب ہائی جیکرز بار بار زی ٹی وی کی ٹیم کا پوچھتے تو ہم بھی وائرلس پر پیغام بھیجتے کیونکہ ہم نے کمانڈوز کو زی ٹی وی کے کوڈ نام سے پکارنا شروع کر دیا تھا اور ساتھ ہی ساتھ اسلام آباد کو نئی دہلی کے کوڈ نام سے پکارنا شروع کر دیا۔' 'گھنٹے ڈیڑھ گھنٹے کے بعد ہائی جیکرز نے کہا کہ گرمی بہت ہے پنکھے لگائیں۔ ہم نے کہا ہمیں اندر جانے دیں تاکہ دیکھ سکیں پنکھے کہاں اور کس طرح لگائے جا سکتے ہیں۔' ڈاکٹر عثمان انور کے بقول وہ سب سے پہلے شخص تھے جو اس رات اس جہاز کے اندر گئے تھے۔ 'میں نے جا کر دیکھا کہ پنکھے چلانے کے لیے جہاز کے اندر کوئی ساکٹ نہیں تھی جس پر ہائی جیکروں کو بتایا کہ جنریٹر کے ساتھ پنکھے لگانے پڑیں گے اور اگر آپ اجازت دیتے ہیں تو ہم منگوا لیتے ہیں۔ اندر گرمی سے مسافروں، بالخصوص بچوں کا بُرا حال تھا اس لیے وہ مان گئے۔' ڈاکٹر عثمان انور بتاتے ہیں کہ 'ہم نے ان کی اجازت سے جنریٹر منگوائے، گاڑی میں جنریٹر آیا تو آئی ایس آئی کے حیدر آباد کے انچارج میجر عامر الیکٹریشن بن کر میرے ساتھ جہاز کے اندر چلے آئے۔ ہم نے دو پنکھے لگائے جس سے جہاز میں سوار مسافروں اور ہائی جیکروں کا سانس بحال ہوا۔'

چونکہ رات کافی ہو چکی تھی اب ہائی جیکرز کہنے لگے کہ انھیں بھوک لگی ہے، اس لیے کھانے کا انتظام کیا جائے۔ ڈپٹی کمشنر حیدر آباد سہیل اکبر شاہ اور دیگر پولیس افسران نے یہ طے کیا کہ اب جو کھانا دیا جائے وہ ایسے کاغذوں میں لپٹا ہو جن پر ہندی لکھی ہو نہ کہ اُردو۔ ڈاکٹر عثمان انور کے مطابق 'ایسے کاغذ تو نہ ملے لیکن انھیں پتا نہیں کہاں سے اور کیسے تھائی زبان کی ڈکشنری یا شاید اخبار ملے جن میں کھانے کو لپیٹ کر ایئرپورٹ لایا گیا اور اس دوران تین چار گھنٹے گزر گئے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ جو ٹیمیں باہر تھیں وہ بھی کتنی محنت کر رہی تھیں۔' 'میں نے صبح کا ناشتہ کیا ہوا تھا اور شام سے ایئرپورٹ پر تھا اب تو بھوک سے سردرد ہو کر وہ بھی ختم ہو چکی تھی۔' ڈاکٹر عثمان انور کے مطابق حیدر آباد کے ڈپٹی کمشنر سہیل اکبر شاہ خود کھانا لے کر آئے اور وہ اس وقت ڈپٹی کمشنر بھوج گوپی چن بن کر آئے اور وہ وہاں بہت اچھا بولے، انھیں بڑی شاباش دی، ان سے بڑے وعدے کیے۔ ہائی جیکر بار بار پوچھتے کہ بابا جان کہاں ہیں جس پر سہیل اکبر شاہ نے انھیں بتایا کہ وہ بھی ٹیم کے ساتھ آ رہے ہیں۔ 'رات شاید ایک سے دو بجے کے درمیان کھانا آیا ہو گا۔ کھانا آنے تک ہماری بڑی دوستی ہو چکی تھی، ہم نے ان کا اعتماد جیتنے کے لیے پاکستان کو بڑا بُرا بھلا بھی کہا اور میں نے انھیں پاکستانیوں کے بڑے لطیفے سُنائے جس پر وہ بہت ہنستے تھے۔' 'جب کھانا آیا تو میں چونکہ بڑا پکا ہندو بنا ہوا تھا میں نے کہا ہم گوشت نہیں کھاتے حالانکہ مجھے اتنی زیادہ بھوک لگی تھی اور بڑا اچھا چکن بنا ہوا تھا لیکن مجھے بند روٹی پر ہی گزارا کرنا پڑا لیکن میجر عامر نے یہ کہہ کر کھا لیا کہ وہ چھپ چھپا کر کبھی کبھار کھا لیتے ہیں۔ اس پر ہائی جیکرز ہمیں کہنے لگے کہ گوشت کھایا کرو یہ اچھی چیز ہے۔ کھانے کے بعد وہ اور زیادہ مطمئن ہو چکے تھے۔ کھانے کے ساتھ امپورٹڈ کولڈ ڈرنکس کا خاص طور پر اہتمام کیا گیا تھا تاکہ کوئی بھی لوکل کولڈ ڈرنک ان تک نہ جا پائے جس سے ان کے اس سارے کام پر پانی نہ پھر جائے۔

ڈاکٹر عثمان انور بتاتے ہیں کہ وہ زی ٹی وی پر ڈرامے اور خبریں بہت شوق سے دیکھتے تھے اور ان ڈراموں کے کچھ الفاظ انھیں یاد تھے بس وہی اس روز پھر کام آئے۔ ڈاکٹر عثمان انور کے بقول معین حیدر جو اس وقت سندھ کے گورنر تھے اور بعد میں مشرف دور میں وزیر اعلیٰ سندھ بھی بنے تو وہ اپنی اہلیہ کے ساتھ اُن سے ملنے آئے اور کہنے لگے کہ 'میں اکثر اپنی بیوی کو کہتا ہوں کہ دیکھو زی ٹی وی دیکھنے سے اس لڑکے نے ہندی سیکھی اور پاکستان کا جہاز بچا لیا۔' ڈاکٹر عثمان انور کے مطابق اس عرصے کے دوران ان کی ایک ہائی جیکر سے اتنی دوستی ہو چکی تھی کہ وہ ان کے سامنے زمین پر پستول رکھ کر لیٹ جایا کرتا تھا اور وہ جہاز کے اندر باہر آسانی سے آتے جاتے رہتے۔ 'ایک مرتبہ میں بھی ہائی جیکروں کے سرغنہ کے ساتھ زمین پر لیٹ گیا اور وہ پوچھنے لگ پڑا کہ کیا آپ کو جہازوں کا پتا ہے تو میں نے کہا کہ ہاں پتا ہے حالانکہ مجھے کچھ بھی پتا نہیں تھا۔ اس نے کہا کہ اس کی ٹینکی کہاں ہے۔ میں نے کہا کہ آپ نے ٹینکی کا جان کر کیا کرنا ہے جس پر وہ کہنے لگا کہ جب زی ٹی وی کا انٹریو وغیرہ سب ہو جائے گا تو اس کے بعد اس نے ٹینکی پہ گولی مارنی ہے جس سے جہاز کو آگ لگ جائے گی۔' ڈاکٹر عثمان انور کے مطابق انھوں نے جہاز کے پچھلے حصے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اندازے سے کہا کہ ٹینکی وہاں ہے حالانکہ اصل میں انھیں کیا پتا تھا کہ ٹٰینکی کہاں ہے۔ 'میں نے اس سے پوچھا کہ آپ لوگ جہاز کو بم سے کیوں نہیں اڑاؤ گے جس پر اس نے جواب دیا کہ ہمارے پاس بم نہیں ہیں۔ میں نے پھر پوچھا جو آپ کے پاس پاؤڈر ہے وہ کہنے لگا کہ وہ بس پاؤڈر ہے اور بم کا ہم نے جھوٹ بولا ہوا ہے۔ اس نے کہا کہ ان کے پاس صرف یہ دو تین پستول ہی ہیں۔' 'جیسے ہی وہ تھوڑا ادھر ادھر ہوا تو میں نے یہ بات فوری طور پر گرچانی صاحب کو بتائی کہ سر اندر بم کوئی نہیں۔ یہ صرف گولی مار کرجہاز کو اڑانا چاہتے ہیں۔'

'کھانے کی فراغت کے بعد وقت تیزی سے گزرتا جا رہا تھا اور صبح ہونے والی تھی۔ اس موقع پر اختر گورچانی صاحب نے کہا کہ اگر صبح ہو گئی اور انھیں پتا چل گیا کہ یہ بھوج نہیں بلکہ حیدر آباد ہے تو یہ ہمیں نہیں چھوڑیں گے اس لیے ہمیں اب کچھ کرنے کی ضرورت ہے اور کسی طرح عورتوں اور بچوں کو باہر نکالا جائے۔' اختر گورچانی کے مطابق انھوں نے فرداً فرداً چاروں افراد سے پوچھا کہ کیا وہ اس وقت آپریشن کے لیے تیار ہیں جس پہ سبھی نے کہا کہ وہ سب تیار ہیں۔ ہائی جیکرز کو منانے کے لیے سہیل اکبر شاہ، اختر گورچانی، میجر عامر اور ڈاکٹر عثمان انور نے اپنے اپنے طور پوری کوشش کی کہ ان کی سب مانگیں پوری کی جا رہی ہیں، اس لیے اب انھیں بھی عورتوں اور بچوں کو باہر جانے دینا چاہیے اور بے شک انھیں جہاز کے پاس ہی آمنے سامنے بٹھا دیں۔ 'اس پر ان کا سرغنہ کہنے لگا کہ یہ ممکن نہیں کیونکہ وہ کل تین لوگ ہیں اور دو تو بلوچ ہیں جنھیں انھوں نے ڈرا، دھمکا کر کھڑا کیا ہوا ہے لیکن وہ ان کے ساتھی نہیں ہیں۔' ڈاکٹر عثمان انور کے بقول انھیں پہلی دفعہ پتا چلا کہ ہائی جیکرز دراصل پانچ نہیں تین ہیں جن میں دو دروازوں پر کھڑے ہیں اور ایک نیچے ہے۔ 'اس وقت تک ہمیں یہ بھی پتا چل چکا تھا کہ جہاز میں بم بھی نہیں ہیں، اس لیے ہم نے چلتے پھرتے ایک دوسرے کو اشاروں کنایوں میں آپریشن کا پیغام دے دیا اور طے کر لیا کہ سب ایک ساتھ تینوں ہائی جیکروں کو دبوچ لیں گے۔' 'جیسے ہی ہائی جیکرز اُن کی بات مان گئے اور انھوں نے سب مسافروں کو جہاز سے باہر نکال کر دروازوں کے سامنے بٹھا دیا تب میں نے اور میجر عامر نے اختر گورچانی کے نعرہ تکبیر کہنے کے فوری ساتھ ہی دروازے پر کھڑے دونوں ہائی جیکروں کو دبوچ لیا۔' 'اس اچانک حملے سے ایک نے مجھ پر فائر کر دیا لیکن گولی مجھے لگنے کے بجائے ان کے اپنے ہی ایک ساتھی کو جا لگی جس سے وہ زخمی ہو گیا۔' 'ان کے سرغنہ شہسوار کو میں نے آسانی سے گر کر قابو کر لیا، وہ سٹپٹا کر نیچے گرا، وہ مجھے دیکھ رہا تھا اور میں نے اپنا گھٹنا اس کی گردن پر رکھ کر کنٹرول کو کال کی کہ ہم نے ہائی جیکر گرفتار کر لیے ہیں۔' 'اس دوران ایک ایئر ہوسٹس کہہ رہی تھی اسے کسی بھی طرح پاکستان پہنچایا جائے وہ انڈیا نہیں رہنا چاہتیں جس پر انھیں بتایا گیا کہ وہ پریشان نہ ہوں یہ حیدر آباد ہے اور وہ پاکستان میں ہیں۔' ڈاکٹر عثمان انور نے بی بی سی کو بتایا کہ 'ہائی جیکرز کو پکڑنے کے بعد انھیں ہم سی آئی اے ہیڈ کواٹرز حیدر آباد لے گئے وہاں ان سے تفتیش ہوئی اور جو زخمی تھا اس کا وہیں علاج کروایا گیا۔ اُن پر پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 402-B کے تحت ایف آئی آر درج کی گئی۔ حیدر آباد کی انسداد دہشت گردی کی عدالت نے تینوں مرکزی ملزمان شاہ سوار، صابر اور شبیر اور ان کے اے این ایف کے ساتھی کو بھی سزائے موت ہوئی لیکن اے این ایف اہلکار کی سزائے موت کو بعد میں عمر قید میں تبدیل کر دیا گیا تھا۔ ان تنیوں کی سزاؤں پر عملدرآمد 28 مئی 2015 کو ہوا۔' دوسری طرف ڈاکٹر عثمان انور اس آپریشن کے دوران خود بھی زخمی ہو گئے تھے کیونکہ پائلٹ نے ان کی طرف کلہاڑی پھینکی تھی جسے انھوں نے ایک ہائی جیکر کے سر پہ مارا تھا لیکن چونکہ انھوں نے اسے دائیں ہاتھ سے دبوچا ہوا تھا اور بائیں ہاتھ سے کلہاڑی چلائی تھی جس سے نہ صرف وہ ہائی جیکر بلکہ وہ خود بھی زخمی ہو گئے تھے۔ اس وقت کے وزیر اعلیٰ سندھ لیاقت جتوئی، کور کمانڈر کراچی لیفٹینٹ جنرل افضل جنجوعہ، آئی جی سندھ آفتاب نبی، چیف سیکریٹری سندھ، ہوم سیکریٹری سندھ اور دیگر حکام حیدر آباد کنٹرول روم میں پہنچ کر اس ساری صورتحال کو مانیٹر کر رہے تھے۔ ڈاکٹر عثمان انور یاد کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ جب وہ کنٹرول روم میں داخل ہوئے تو ان کا ہاتھ زخمی تھا اور خون نکل رہا تھا۔ اس موقع پر کور کمانڈر کراچی لیفٹینٹ جنرل افضل جنجوعہ کہنے لگے کہ 'عثمان میں آپ کو اس بہادری پر سلوٹ کرنا چاہتا ہوں اور انھوں نے سب کے سامنے مجھے سلوٹ کیا۔' 'وزیر اعلیٰ لیاقت جتوئی نے بڑی شاباش دی اور آئی جی آفتاب نبی نے اختر گورچانی اور ان کا نام قائد اعظم گولڈ میڈل ایوارڈ کے لیے نامزد کیا جو بعد میں ڈاکٹر عثمان کو تو دے دیا گیا لیکن وہ ایوارڈ اختر گورچانی کو نہ دیا جا سکا۔ میجر عامر اور میجر طارق انیس احمد کو بھی اعزازات سے نوازا گیا۔' ڈاکٹر عثمان انور بتاتے ہیں کہ وہ اگلے روز صبح پانچ چھے بجے کے قریب گھر پہنچے تھے اور ہاتھ پہ پٹی لگی ہوئی تھی۔ انھوں نے کہا کہ 'ان کی اہلیہ کو بالکل بھی پتا نہیں تھا کہ کیا ہوا ہے کیونکہ وہ سو رہی تھیں لیکن جب انھیں پتا چلا تو زخم دیکھ کر تھوڑا پریشان ہوئیں لیکن وہ، والد صاحب اور بھائی سب اس کارنامے پہ بہت خوش تھے۔' ڈاکٹر عثمان انور بتاتے ہیں کہ ابھی وہ ایئرپورٹ پر ہی تھے جب وزیر اعظم آفس سے انھیں فون کر کے آپریشن کے متعلق پوچھا گیا اور وزیر اعظم کی طرف سے شاباش دی گئی۔ ان کے بقول 'اگلے روز وزیر اعظم نواز شریف کی طرف سے ایک میسینجر بھی گھر پر آیا اور اس کارکردگی پر وزیر اعظم نواز شریف کی طرف سے ایک تحریر دی گئی جس پہ ان کی کارکردگی کو سراہا گیا تھا۔' ڈاکٹر عثمان انور کے مطابق ان سمیت چار لوگوں بشمول ڈپٹی کمشنر حیدر آباد سہیل اکبر شاہ، ایس ایس پی اختر گورچانی اور آئی ایس آئی کے حیدر آباد کے انچارج میجر عامر کو وزیر اعظم نواز شریف نے کھانے پہ بلایا اور بڑی حوصلہ افزائی کی گئی۔ ایک سوال کے جواب میں ڈاکٹر عثمان انور نے بتایا کہ 'کسی بھی ایسے موقع پر جاتے ہوئے تھوڑا بہت خوف ضرور ہوتا ہے لیکن جب آپ موقع پہ چلے جائیں پھر کوئی خوف نہیں رہتا پھر ایک ٹارگٹ ہوتا ہے جسے حاصل کرنا ہی مقصد ہوتا ہے۔ اختر گورچانی بھی ان لمحات کو یاد کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ اس آپریشن کے بعد سب نے انھیں کندھوں پہ اٹھا لیا اور کئی روز تک حیدر آباد کے شہری اس شجاعت پہ ان کی دعوت کرتے رہے۔' اختر گورچانی کو آج بھی اس کارنامے پہ قائد اعظم پولیس میڈل نہ ملنے کا رنج ہے۔ وہ کہتے ہیں ان کا نام بھی بھجوایا گیا تھا لیکن اس وقت کے وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف ان سے کچھ ناراض تھے اس لیے ان کے بھائی وزیر اعظم نواز شریف کے سٹاف نے ان کا نام لسٹ سے یہ کہہ کر خارج کروا دیا کہ 'آفیسر خود کچھ کرتے نہیں، کام جونیئر سے لیتے ہیں بس انعام کے لیے اپنا نام ڈلوا لیتے ہیں۔' اختر گورچانی کے مطابق انھیں ایک بار پی ٹی وی بھی بلایا گیا کہ اس ہائی جیکنگ پر ڈرامہ بنائیں گے لیکن بعد میں خود ہی انھوں نے منع کر دیا۔ ڈاکٹر عثمان انور آج بھی سمجھتے ہیں کہ 'اس آپریشن کے انچاج اختر گورچانی تھے جنھوں نے اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر اس آپریشن کو لیڈ کیا تھا اور اگر وہ ناکام ہو جاتا تو پتا نہیں کب تک ہم لوگ انکوائریاں بھگتے رہتے کیونکہ اس آپریشن کا فیصلہ ہم چار لوگوں نے ہی کیا تھا لیکن اللہ کی مہربانی سے سب اچھے طریقے سے ہو گیا اور تمام مسافروں کو صحیح سلامت ریسکیو کر لیا گیا۔' ڈاکٹر عثمان انور کے بقول میجر عامر نے انھیں کہا تھا کہ اگر وہ اس آپریشن میں زندہ بچ گئے اور ﷲ نے انھیں بیٹا دیا تو وہ اس کا نام عثمان ہی رکھیں گے۔ ڈاکٹر عثمان انور کے مطابق بعد میں ایک شادی میں میجر عامر جو اس وقت ترقی پا کر کرنل بن چکے تھے، وہ ملے اور انھوں نے اپنے اس بیٹے سے ملوایا جس کا نام انھوں نے عثمان رکھا تھا۔

برصغیر کی تاریخ میں مغلیہ سلطنت، برطانوی راج اور آزادی کی تحریکیں نمایاں ہیں۔ اس خطے کی ثقافت اور سیاست پر ان ادوار کا گہرا اثر ہے۔

پاکستان کی تاریخ قیام پاکستان، آئین سازی، جمہوری و فوجی ادوار اور جدید ترقی پر مشتمل ہے۔ یہ قوم کی شناخت اور مستقبل کی سمت متعین کرتی ہے۔